تیرے عشق میں -- باب - ۵
باب - ۵
ارے واہ کیا کمال کی ڈریسنگ ہے، ویسے یار شاہمیر ایمانداری سے ایک بات بتاؤ،،،،،
ہنم بولو
شاہمیر مصروف انداز میں بولا جانتا تھا ضرور کوئی الٹی بات ہی ہوئی
یار تمہارا دل نہیں کرتا شادی کا
ہوں ، اتنے خوبصورت ہو آخر اور ایک بھر کر ایک لڑکی تمہاری راہوں میں بچھی ہے،،،،اب جب
تک تم شادی نہیں کرو گے میری باری پہلے آنا تو ناممکن ہے،
اوہ مائی گوڑ کہی تو مجھے کنورا مارنے کے چکر میں تو نہیں ،،، دیکھ بلکل سچ بتائی ، عباس نے شاہمیر کی عین مطابق فضول گوئی شروع ہو چکی تھی ،،،، اب اس کی یہ باتیں سفر تمام ہونے کے بعد ہی ختم ہو سکتی تھی
شٹ اپ! بکواس نہ کر یہ بتاؤ کس ریسٹورنٹ میں جانا ہے شاہمیر نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے پوچھا
وہیں جہاں تو لے کر جائے گا،،، عباس نے اپنے جان سے عزیز پیارے سے دوست کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
شاہمیر شاہ اور عباس کی دوستی بے مثال تھی اسکول، کالج، یونیورسٹی کا سفر دونوں نے ساتھ ہی طے کیا۔ ہر مشکلات میں ساتھ ساتھ ، ہر خوشی اور غم میں ایک ساتھ ، جیسے ایک پر خلوص دوست کو ہونا چاہیے،،،،
شاہمیر کی زندگی میں ایک عباس ہی ایسا شخص تھا جس سے شاہمیر کو زندگی کے ہر رنگ اچھے لگنے لگے تھے اور جینا سکھایا تھا، شاہمیر کے سامنے کسی کی بھی ہمت نہیں تھی اونچی آواز میں بات کر سکے،، سوائے سخاوت شاہ کے علاوہ وہ بھی اسلئے شاید وہ باپ کا درجہ رکھتے تھے اس لئے لحاظ کر جاتا
صنم میں گاڑی نکال رہاہوں بیٹا۔ جلدی سے آجاؤ،،،" جواد صاحب نے باہر نکلتے ہوئے آواز دی جی بابا جان ! آپ چلیں میں بس پانچ منٹ میں آئی۔ صنم کہتے ہوئے اپنے بالوں میں برش کیا اور اپنی خوبصورت سی چادر کو لپیٹتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگی۔ شمسہ بیگم ظہر کی نماز ادا کرنے میں مصروف تھیں، ورنہ کو نا کوئی نصیحت ضرور کرتیں،،،،،،
صنم بیٹا چادر اندر کرو گاڑی سے
جواد صاحب نے بیٹی کو نصیحت کی۔۔
صنم نے حکم کی تعمیل کی۔۔۔۔ جواد صاحب گاڑی آہستہ چلاتے ہوئے روڈ پر آئے۔۔۔۔ کہ اچانک گاڑی ٹرن کرتے گاڑی کا ٹائر چرچرایا اور گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوا جواد صاحب کا اسٹیرنگ پر سے ہاتھ ہٹا۔۔۔۔ گاڑی ایک تیز رفتار سے ایک پیڑ سے جا لگی۔۔۔ صنم کی چینخ فضا میں گونجی۔۔۔۔۔ دوسری طرف عباس کی چینخ کی آواز شاہمیر کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔۔
شاہمیر کو اچانک ہوش آیا، اور دونوں جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول باہر نکلے اور ہکا بکا ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
صنم نے گردن موڑ کر دیکھا وہ دونوں شخص بیک سے اپنی گاڑی سے باہر نکل کر گاڑی کے قریب آئے ،،،
صنم نے جھٹ سے اپنے چہرے کو ڈھکا اور آنکھوں سے آنسوں کی دھارے شروع ہو گئی وہ خالی خالی نظروں سے کبھی اپنے بابا کو کبھی ان دونوں لڑکوں کو دیکھ رہی تھی
I am really sorry
عباس کی آنکھوں میں ڈر کی لکیریں صاف دکھ رہی تھی۔ شاہمیر نے ناچاہتے ہوے بھی عباس کے لاکھ کہنے پر اسے کچھ ٹوٹے پھوٹے لفظ بمشکل ادا کیا۔۔۔۔۔
سوری
شاہمیر نے کہا،،،، صنم کو آگ لگی تھی ان کے سوری کرنے پر ، شاہمیر نے سرد نظر اس لڑکی پر ڈالی جو اس وقت غصہ اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ آنکھوں سے گرتے آنسووں کو ہاتھ سے رگڑ کر انقاب سے چہرے کو پوری طرح چھپاے گاڑی سے نکلی
مانا کہ یہ گاڑی آپ کی ملکیت ہے لیکن یہ روڈ میرے خیال سے آپ کی ملکیت ہے”
صنم غصہ سے بولی! اتنے میں جواد صاحب گاڑی کی چابی نکال کر باہر آئے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے اچھے گھر کے دیکھتے ہیں بیٹا آپ دونوں ، غلطی ہوئی ہے آئیندہ خیال رکھیے گا۔۔۔۔۔ جواد صاحب اپنی شگفتہ طبیعت کی وجہ سے کچھ نا بول سکے۔۔۔۔ اسلئے انہوں نے بات کو در گزر کرنا
چاہا۔۔۔۔۔
تبھی صنم بیچ میں اونچی آواز میں بولی ،،،
بابا ،، ایسے کیسے ،،،، اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو یہ امیر لوگ خود کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں، صنم نے آخری الفاظ دہراتے ہوئے شاہمیر کو اچٹتی نظروں سے دیکھا
" آئی ایم سوری انکل " آیندہ ہم خیال رکھیں گے۔
عباس نے افسردہ لہجے میں کہا۔۔۔
انکل اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ہم ڈراپ کر سکتے ہیں
عباس یہ کہتا ہوا شاہمیر کو زہر سے بھی زیادہ برا لگا
شاہمیر بیزار ہونے لگا تھا اب۔۔۔
“عباس فری ہو جانا تو گاڑی میں آجانا میں ویٹ کر رہا ہو تمہارا شاہمیر کا یہ انداز عباس کو ایک آنکھ نا بھایا۔۔۔۔
ایک لمحے کے لئے شاہمیر شاہ اور صنم کی نظریں ٹکرایں
صنم کی آنسوؤں سے بھری بھوری آنکھیں شاہمیر کو کنفیوز کر رہی تھیں۔۔۔
جس کی سیاہ گھنی پلکوں نے آنسوؤں سے تم تر آنکھوں کی خوب صورتی کو دوبالا کر دیا تھا۔... اور ایک ہی پل میں جھک گئی۔۔۔۔۔۔
بد تمیز صنم نے اونچی آواز میں کہا۔ جو شاہمیت شاہ کے کانوں نے بخوبی سنا تھا۔
لیکن موبائل میں مصروف ہوتا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔
نہیں نہی بیٹا کوئی بات نہیں ہم چلے جائینگے ، جواد صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔"
ہمیں کسی کا احسان لینے کی ضرورت نہیں ہے ، صنم چیڑ کر بولی۔۔۔۔۔ عباس نے صنم کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر جواد صاحب سے بولا انکل ہمیں گلٹی محسوس ہورہی ہے پلیز چلیں ہم آپ کو ڈراپ کر دیں۔۔۔
شاہمیر اور صنم کی پہلی ملاکات کی میٹھی سی نوک جھوک آپ لوگو کو کیسی لگی کمنٹس میں زرور بتاے۔
اگر آپ لوگو کو میری ناول پسند آ رہی ہو تو پلز سارے باب کو لایک کرے۔
اگلا باب میں بھت جلد پیش کرونگی تب تک کہ لے اللہ حافظ۔